کیا ہم اسلامی روایات کے مطابق زندگی آج کے دور میں بسر کر رہے ہیں؟

ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا؟

آج اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے تو بےجا نہ ہو گا۔

ہم نے آزاد ملک تو حاصل کرلیا مگر غلامی کی زنجیروں کو پھربھی نہ توڑ سکے اور آج مغرب کی اندھی تقلید سے اپنے درجے سے بہت نیچے چلے گئے۔۔

کب اور کیسے ہمارا مکمل لباس کپڑے کے چند ٹکڑوں پر ترقی کے نام پر تبدیل ہوا ہمیں خبر ہی نہ ہوئی۔۔

ہماری ترجیحات یکسر بدل گئیں اور ہمیں اندازہ ہی نہ ہوا۔۔وہ مسلمان مائیں جو شہید کی بیٹی ماں یا بہن کہلائے جانے پر فخر محسوس کرتی تھی آج وہی مائیں اپنے بیٹوں کو زنانہ اور انگریزی لباس پہنے دیکھ کر ، اس کے سنت نبویؐ سے خالی چہرے کو دیکھ کر فخر محسوس کرنے لگی۔۔

پھر وہ مسلمان جن کے رعب سے کفر لرز اٹھتا تھا۔جن کی قوت و غیرت کی مثالیں زباں زدِ عام تھیں ایک کھوکھلے تنے کی صورت اختیار کر گئے۔۔

 نتیجہ یوں نکلا:

کہ آج اسلام امن کا درس دیتا ہے۔پھر بیشک ہماری بہن عافیہ صدیقہ دشمن کے نرغے میں ، ان کے شکنجے میں کیوں نہ جکڑی رہے۔۔اس کی عزت کو پامال کیا جائے۔اس کی آہیں اور سسکیاں آج ہمیں سنائی نہیں دیتیں کیوں کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے

فلسطین کے وہ بےبس مسلمان ،وہ اپنی بے حرمتی پر ماتم کرتی ہوئی مسجد اقصیٰ آج مسلمان کے ضمیر کو جگانے سے قاصر ہے کیونکہ آج اسلام امن کا درس دیتا ہے۔

شام سیریا انڈیا اور  دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔آج ہمیں بیدار کرنے سے لاچار ہیں کیونکہ آج اسلام امن کا درس دیتا ہے۔

ہماری بہنوں ہمارے بھائیوں کو ان کا گناہ بتائے بغیر بےدردی سے قتل کر دیا جائے ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ آج اسلام امن کا درس دیتا ہے۔۔

ہم کیوں بھول گئے کہ جس نبی  صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم محبت کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں

اور نعرے لگاتے ہیں کہ :

غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے

ان کی اپنی ساری زندگی جنگ اور معرکوں میں گزری۔۔

تو کیا آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم امن پسند نہیں تھے؟؟(نعوذباللّٰہ)

آج ہمارے ملک میں جو اسلام کے نام پر بنا اسلام کو ہی قبول کرنے کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں ۔۔حکمرانوں کا ضمیر مر چکا ہے

مگر اجتماعی کامیابی کے لیے ہمیں پہلے انفرادی طور پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔۔ہمیں پہلے اپنی ذات سے شروع کرنا ہو گا۔۔

اگر آج ایک عورت خود کی اصلاح کرے گی تو ہی امت کو بایزید بسطامی،امام بخاری،ابو حنیفہ و شافعی،امام مالک،عبدالقادر جیلانی،مولانا محمد قاسم نانوتوی،معین ،مولانا محمد الیاس،مولانا محمد رشید احمد گنگوہی ملیں گے۔۔

اگر آج ہم نے اپنی سوچ کو نہیں بدلہ اگر آج بھی ہم غفلت کی نیند سوئے رہے تو کل ہم کس منہ سے اپنے آقاصلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حاضر ہوں گے۔۔

مسلمان سوئے ہوئے شیر کی مانند ہیں جو جاگ جائیں تو ہر ایک دشمنِ اسلام کو بھنبھوڑ کر رکھ دیں۔۔۔

اب وقت آگیا ہے بیدار ہونے کا اور اپنا ماضی دہرانے کا،ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا وقت اب آن پہنچا ہے۔۔

خدارا گمراہی کے اندھیروں سے باہر نکلیں اور ایک نئی صبح کے طلوع میں اپنا حصہ ڈالیں۔۔

اختتام اس ایک شعر سے:

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں،طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے