ڈیجیٹل طوائف خانہ
پہلے فینز کو بلایا جاتا ھے. بتایا جاتا ہے. ایڈریس سمجھایا جاتا ہے. میں نے آج ٹک ٹاک بنانی ھے. تم وہاں پہنچ جاؤ تاکہ استقبال سے پتہ چلے کہ کتنی مقبولیت ھے.
پھر جب محبت سے بھرے ہوئے فینز پہنچتے ہیں. محبت کا اظہار کرتے ہیں. ہوا میں گیند کی طرح اچھالتے ہیں. جسم کے حصوں کو عقیدت سے چھوتے ہیں. فرط جذبات میں ایک دوسرے سے چھینتے ہیں. اپنے ساتھ لیجانے کے لیے بازو اور ھاتھوں پاؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہیں تو پھر فینز کی محبت پر غصہ آتا ھے . دل گھبراتا ھے. تب پرچہ کروانے کا خیال آتا ہے. کیمرہ مین عامر سہیل کے ساتھ مینار پاکستان سے فلاں بنت فلاں کی درخواست پر 400 فینز کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا جائے سزا دی جائے.. وغیرہ وغیرہ.
میں دیکھتا ہوں میرے سارے ملک کے عوام آھستہ آھستہ جسم فروشی کے اس جدید ڈیجیٹل کاروبار سے وابستہ ھوتے جا رہے ہیں.. وہ ساز وہ باجے وہ گھنگھرو وہ تماشبینی وہ نوٹ نچھاور کرنے کے مناظر.... سب کے انداز بدل گئے ہیں.. اب ٹک ٹاک پر ویڈیوز ڈال کر گاھک اکٹھے کیے جاتے ہیں. تماشبینی کے شوقین افراد کو مائل کیا جاتا ہے.. پہلے تماشبین کہلاتے تھے اب فینز کہلائے جاتے ہیں کاروبار وہی ھے کردار وہی ہیں کاروبار کے اصول وہی ہیں لیکن تماشبیبوں کو بستر پر لیٹے لیٹے ان گھروں میں ہی سب کچھ دکھا دیا جاتا ہے اور پھر بخشیش بھی لے لی جاتی ہے..
ہوتا کیا ہے؟
سب سے پہلے دعوت گناہ اور دعوت نظارہ دیتی ھوئی ذومعنی حرکات اور جملوں والی ویڈیوز بنا کر ٹک ٹاک پر چھوڑی جاتی ہیں. یہ ایک طرح سے مچھلی پکڑنے کے چارے جیسا کام ھے. ھوس کی ماری چھوٹی بڑی مچھلیاں یا فینز ان ویڈیوز کو دیکھ کر بات چیت گپ شپ کا آغاز ھوتا ھے لائیو شو میں فحش جملے بازی چلتی ہے اور پھر میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ھو جاتا ہے.. ایسے ڈیجیٹل میل فی میل طوائفوں کے حق میں اس وقت بڑے ہی بیچارگی کے بیانات آتے ہیں جب ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر پاکستان میں پابندی لگتی ہے تو عدالتوں کے ٹھرکی عیاش بدمعاش بدکردار شرابی کبابی ججوں چیف جسٹسوں اور جسٹسوں کے آنسو بہنے لگتے ہیں. حکومت ان بیچارے تھوڑا تھوڑا کمانے والوں کے روزگار کی دشمن ھو گئی ہے..
خیر آگے چلتے ہیں.. فینز کی تعداد بڑھائی جاتی ھے..ان میں سے کچھ مالدار فینز عرف تماشبین چن لیے جاتے ہیں. الگ کر لیے جاتے ہیں.. ان سے بالکل اس بازار جیسے انداز میں بات چیت شروع ھوتی ہے والدین بہن بھائی اور باقی سب اھل خانہ بھی اس گندی کمائی میں مددگار اور سہولت کار ھوتے ہیں.
مالدار فینز سے بھاری رقوم کے عوض ملاقاتیں شروع ھوتی ہیں. ان ملاقاتوں کا علم ماں باپ شوھر اور ساس سسر کو بھی ھوتا ھے سبھی اپنا اپنا حصہ لیتے اور دیتے ہیں.. بھائی باپ شوھر یا بہن کی مدد کے بغیر تو ایک ویڈیو تک نہیں بنائی جا سکتی. سب کو پتہ ھوتا ھے کہ فینز کی جنسی تسکین کے لیے ویڈیوز بنائی اور ٹک ٹاک پر ڈالی جاتی ہیں..
مجھے ایک دوست نے کسی مشہور ٹک ٹاکر لڑکی کی ویڈیو بھیجی جو اپنے فینز کے ساتھ کسی ھوٹل میں کھا پی رہی تھی اور اس کے فینز ایک دوسرے کے سامنے اس کے ساتھ ایسی فحش حرکات کر رہے تھے کہ کسی کا بھی سر شرم سے جھک جائے.. جبکہ دوسرا فین ان سب کی حرکتوں کی ویڈیو بنا رہا تھا.. وہ ٹک ٹاکر ھنستے ہوئے خوشی سے سیالکوٹ کے نعرے لگا رہی تھی. وہ بھائی جنہوں نے ویڈیو بھیجی کہنے لگے یہ ھے آج کے پاکستان کی نئی نسل کا اصل چہرہ...
مجھے اس واقعے کا بالکل بھی افسوس نہیں ھوا. کیونکہ میں نے سنا ھے جس کیمرہ مین ٹیم کے ساتھ گئی تھی وہ بھی پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے اس کے فینز تھے اور اس نے اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ سے سب فینز کو مینار پاکستان آنے کی دعوت دے رکھی تھی. پہلے تو چار سو فینز کی تعداد کو دیکھ کر مایوس ہوئی پھر جب چار سو فینز نے اپنی عقیدت کا اظہار شروع کیا تو یہ چار سو ہی درندے لگنے لگے..
سنا ہے پولیس نے فینز کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ھے. لیکن کسی کے متعلق شناخت نہیں ھو سکی... تماشبیبوں کی صرف ایک ہی شناخت ھوتی ھے.. وہ صرف تماشبین عرف فینز ھوتے ہیں..